کیا سمجھتا ہے اپنے پیکر کو 

کیا سمجھتا ہے اپنے پیکر کو
آکبھی دیکھ میرے اندر کو

جانتا تھا میں طرف ساقی کا
میں نے الٹا ہی رکھا ساغر کو

یوں نظر وہ نہیں ہے آنے کا
کر دے آزاد خود سے منظر کو

کوئی سودا نہ سنگ کی امید
لاو پھینک آئیں اب کہیں سر کو

کہتا پھرتا ہے فخری گھر بھر سے
کوئی پہنچا دو اب مجھے گھر کو 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *