کب تو نے میرے درد کا چارہ نہیں کیا
کب تو نے میرے درد کا چارہ نہیں کیا
پر حق چارہ کر کا خسارہ نہیں کیا
دوزخ بھی دیکھ لیں گے جو مقسوم ہے یہی
کیا میں نے تیرے ساتھ گزارہ نہیں کیا
غیروں نے مجھ کہ پوچھا تو اب کیوں خفا ہو تم
کیا میں تمہارے در پہ پکارا نہیں گیا
کب اپنے حال زار کی بھی فکر میں نے کی
کب میں تمہاری زلف سنوارا نہیں کیا
دل کی کروں میں فکر کہ جان کا سنوں گلہ
سارے جہاں کا میں نے اجارہ نہیں کیا
میری تباہیوں پہ ہیں شرمسار کیوں
میں نے کسی کی سمت اشارہ نہیں کیا
ہے اس کے دشمنوں سے مجھے کیوں مخاصمت
یہ ربط بھی تہ اس نے گوارا نہیں کیا
محفل میں وہ سبھی سے رہے ہم سخن حبیب
میری ہی سمت روے دلارا نہیں کیا