ایک کروٹ سے بندھا فخری پڑا ہے آج تک
ایک کروٹ سے بندھا فخری پڑا ہے آج تک
ہاتھ یون پتھر تلے اس کا دبا ہے آج تک
ابتدائے عمر ہی میں توڑ دی جس نے کمر
پشت پہ وہی بوجھ جوں کا توں دھرا ہے آج تک
دیدہ تر تھے کہ بے رت عمر بھر برسا کئے
بیج بے موسم کے دل بوتا رہا ہے آج تک
لے گیا ہے چھین کراحساس جنبش بھی کوئی
سر نہ جانے کب سے زانو پر دھرا ہے آج تک
سیج پر پھولوں کی اک دن سو گیا خواب میں
تب سے جلتی ریت پریہ دل پڑا ہے آج تک
چھین لی تھی کانچ کی گولی کسی نے ہاتھ سے
دل مرا بچپن سے اس پر رو رہا ہے آج تک
آندھیاں کیا کیا چلیں فخری نہ دشت عمر میں
ایک پتہ ڈھال سے چمٹا ہوا ہے آج تک