طوفان کا تھا ہر ایک پیاسا  

طوفان کا تھا ہر ایک پیاسا
بے لہر تھے دل تو بند دریا

سینوں میں کہو تھا ایسا طائر
سہما سہما ڈرا ڈرا سا

جذبے تھے کٹی پتنگ جیسے
سوچیں تھی کہ پاگلوں کا سپنا

چندھیائی ہوئی تھی نور کی انکھ
رنگوں کا گلا رندھا ہوا تھا

جینے کی امنگ موج انفاس
دشت تہ سنگ ہر کوئی تھا

وہ دختر آفتاب اگئی
وہ شاہد مہر تاب ذرہ

وہ جس سے رخ حیات گلگوں
میرے ترے خواب ہیں شفق زا

قرنوں سے تھی قید زیر افلاک
مونس تھا نہ کوئی آشنا تھا 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *