اے دل مرے مبتلا دریا

اے دل مرے مبتلا دریا
صحرا صحرا رلائے دریا

ساحل دامن ہزار پھیلائے
کیا ذکر جو ہاتھ آئے دریا

اک بار نکل پڑے سفر پر
مر کر کبھی گھر نہ آئے دریا

ہر لہر میں جذب سو سو پرتیں
جانے کی کیا چھپائے دریا

کب تک یہ کنواں سا ذات میں خول
مجھ کو بھی ملے قبائے دریا

کیا شال دو شالے جسم و جاں کے
ملتی جو مجھے ردائے دریا

موجیں میری کیوں رکی کھڑی ہیں
کیا میں نہیں ہم نوائے دریا

مخری میرے پاینوں کے عاشق
سیکھو بھی کوئی ادائے دریا 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *