عام ہی تھا جو راستہ بھی چلے

عام ہی تھا جو راستہ بھی چلے
ساتھ بھی ہم چلے جدا بھی چلے

قافلہ کیا چلے جو یوں سوچیں
اپنے ہمراہ دوسرا بھی چلے

کتنے ساحل پہ رہ گئے کہتے
بادباں کیا کھلے ہوا بھی چلے

ہم نے لب سی لئے کہ یوں ہی سہی
بات کا کوئی سلسلہ بھی چلے

شہر آباد ہے کہ ویران ہے
گھر سے نکلیں تو کچھ پتا بھی چلے 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *