وہ نخل شوق جو پائے تو کیسے پائینمو
وہ نخل شوق جو پائے تو کیسے پائینمو
ہوائے درد کو ٹھہرالیا ہو جس نے عدو
سحر کا رنگ ہی ایسا ہے یا خدا جانے
بسا ہوا ہے نگاہوں میں رات کا جادو
یہ کیا چمن ہے کہ ذکر بہار سنتے ہی
کلی کو خوف صبا ہے تو گل کو فکر رفو
کوئی یہ دشت میں مجنوں کو بھی خبر کر دو
کہ آ کے شہر میں بسنے لگے ہیں اب آہو
کہاں سے لاو گے مرہم ان آبلوں کے لیے
کہا تھا سینت کے رکھو نہ دل میں یوں آنسو
صبا سے کھل نہ سکی خوف باغیاں سے کبھی
کلی کے سینے ہی میں گھٹ کے رہ گئی خوشبو
اسے بھی چاہیے تعبیر اپنے خوابوں کی
ملے جو فخری کو بھی کوئی یوسف خوش خو