سعی یک عمر کیا بتائیں ہم
سعی یک عمر کیا بتائیں ہم
دیر چھوٹا تو آن پہنچے حرم
دل سے کوئی خیال بھی گزرے
ڈھونڈتے ہیں ہم ان کا نقش قدم
کون تصنیف غم کو اپناتا
کر دیا ہم نے اپنا نام رقم
دوسروں سے اگر ملی فرصت
آپ سے بھی کبھی ملیں گے ہم
دل وہ عالم کی بے بسی کی لاج
قظرہ دریا کی بے تہی کا بھرم
کچھ اگر ہے تو وہ سرپردہ
پس پردہ تو کوئی کیف نہ کم
مرثیہ لکھ گئے غزل میں حبیب
کون کرتا ہمارا یوں ماتم