جانے کس نے اور کب پرچم نیا لہرا دیا
جانے کس نے اور کب پرچم نیا لہرا دیا
قلعے کے حاکم نے تو شب بھر پڑا پہرا دیا
لاو ہم بھی ایک دن آئینہ دکھلا دیں اسے
ناز ہے اس کو کہ اس نے ہم کو اک چہرہ دیا
کشمکش سے کس قدر آزاد رکھا بخت نے
میں کو اندھا تھا تو گھر بھی گونگا اور بہرا دیا
سرسری واقف تو کرتے ہیں جفا بھی سرسری
دوست تھا گہرا تو اس نے زخم بھی گہرا دیا
بے زباں معشوق مے بے نشہ بے پایاں فراغ
اجر اک سجدے نے مجھ کو دہرا اور تہرا دیا
تو نے شاعر کر کے فخری کو عذاب جاں کیا
پھر اسنے ملا بنا کے اور بھی زہرا دیا