میری ذات ہوا

حبیب فخری

پیش لفظ

میں نے جس ماحول میں آنکھ کھولی اس کی فضائیں جگر مراد آبادی کے شعروں کو ان کی مترنم آواز میں گنگناتیں اور اس کے درودیوار ’’بھوپال بھوپالیوں کے لیے ہے‘‘ کے سیاسی نعروں سے گونجا کرتی تھیں ۔ جگر ہر دوسرے تیسرے سال بھوپال آتے اور کبھی کبھی دو تین تین مہینے ٹھہرا کرتے ۔ مجھے ےاد ہے کہ میری گلی کے دس میں سے نو گھر اُن کی قیام گاہ رہ چکے تھے ۔ اکثر وہ میرے چچا حامد سعید خاں کے ہاں جو خود بھی بہت اعلیٰ پائے کے شاعر تھے ےا اسی گلی میں محمود علی خاں جامعیٰ کے ہاں ٹھہرا کرتے ۔ ان کی شراب نوشی اور وارفتہ مزاجی میری آنکھوں دیکھی باتیں ہیں ۔ میرے والد شریف فکری کا شمار شہر کے ممتاز شعراء میں ہوتا تھا ۔ وہ شوق قدوائی کے نمایاں شاگردوں میں سے تھے ۔

شعر گوئی کے ساتھ ساتھ وہ ادیب اور نقاد بھی تھے اور ایک رسالے ’’البصار‘‘ کے ایڈیٹر بھی ۔ ۹۲۹۱ء میں جب اپنے محکمہ کے انگریز وزیر سے کھٹ پھٹ پر وہ تخفیف کی ذیل میں قبل ازوقت ملازمت سے فارغ کر دیئے گئے تو شعر و ادب کے ساتھ ریاستی سیاست میں بھی دلچسپی لینے لگے لیکن ادب وشعر سے زیادہ سیاست ہی اب انکی دلچسپی کامرکز بن چکی تھی ۔ شام ہوتے ہی گھر کی بیٹھک میں سیاسی لیڈروں کی محفل جم جاتی جو رات دیرگئے تک چائے کے دور کے ساتھ چلتی رہتی ۔ اس محفل کے کئی شرکاء آگے چل کر ریاست کے وزیراعظم بنے  ۔   اس محفل کا سلسلہ ۵۴۹۱ء میں میرے والد کی اچانک وفات پر منقطع ہوگیا ۔

تاثرات

حبیب فخری ایک بہت ہی خوبصورت شاعر ہیں جنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے اپنے دل کے احساسات کو بےانکہ واضح کیا ہے۔ ان کی شاعری محبت، خوشی، درد، اور فراز و نشیب کی دنیا کو بہت خوبصورت انداز میں بیان کرتی ہے۔ ان کے شعروں میں شاعری کی لذت کا ہر اظہار موجود ہے۔
حمزہ رضوی