یوں تو آتا ہے یہاں ہر شخص کو باتوں کا فن

یوں تو آتا ہے یہاں ہر شخص کو باتوں کا فن
پھر بھی اس گفتار کے جنگل میں گونگا ہے سخن

گر نہ جائے ایک دن چپکے سے دیوار وجود
جمع ہے اس میں نہ جانے کتنے قرنوں کی تھکن

یہ نہیں معلوم کس کے پاس ہے اس کا سرا
یہ خبر ہے میری گردن میں پڑی ہے اک رسن

اشک انجم رولتے گزری ہے اس کی ساری عمر
سینہ شب میں خدا جانے یہ ہے کیسی دکھن

سچ تو یہ ہے تو نے فخری آپ لوٹائی بہار
اتنی اونچی بھی کوئی رکھتا ہے دیوار چمن 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *