ہاتھ میں ہر شخص کے ہیں اپنے خوابوں کے علم
ہاتھ میں ہر شخص کے ہیں اپنے خوابوں کے علم
میں تہی دست ایسا جیسے میرے بازو ہوں قلم
آرزو کے وہ ہنڈولے تو ملے سب خاک میں
میرے جتنے نقش ہیں اب ان کے خالی گود کھم
ڈھیر ہے ملبے کا جس کو کہ رہا ہوں زندگی
جسم کی دیوار کب تک اس کا ر کھے گی بھرم
اک حرف آرزو لکھنے میں تجھ سے کیا کہوں
ہاتھ کتنے کٹ چکے ہیں سر ہوے کتنے قلم
کیسی کیسی ارزوئیں، کتنے ارماں، کتنے خواب
عمر بھر کرتا رہا کیا کیا ہواوں پر رقم
زنگ لگنے سے کہیں بہتر ہے گھس کر ختم ہو
گشت میں ہو تو د فینے سے ہے اچھا اک درم
آسماں ہی تو ہٹا ہے سر پہ سے پھر کیا ہوا
اب بھی فخری تیرے سھرتی ہے تیرے زیر قدم