گم نہ کرنا میرا قالب گر ہو بکھرنا مجھے
گم نہ کرنا میرا قالب گر ہو بکھرنا مجھے
مجھ کو ڈر ہے تجھ کو پڑ جائے نہ دہرانا مجھے
میں ضیا ہوں مجھ کو ہر اندھا پھٹکنے پر بضد
میں ہوا پر خاک کے ہر ذرے نے چھانہ مجھے
خواب شیریں بن کے سویا رہتا بس خوار و زبوں
سنگ نے جانا مجھے تیشے نے پہچانا مجھے
ابر بن کے سایہ کرنا ہے جھلستی سھوپ پر
دھوپ بن کر برف سایوں کو ہے پگھلانا مجھے
تجربے کو فن میں تا میرے رے امکان کھلیں
مین نہیں کہتا بنائے رکھ تو پیمانہ مجھے
لفظ ہو جاتے ہیں کیونکر بانجھ کیسے بارور
یہ ابھی فخری سے بوڑھے کو ہے سکھلانا مجھے