ڈھل چلی رات بھی، جی بھر کے میں رعیا بھی نہیں
ڈھل چلی رات بھی، جی بھر کے میں رعیا بھی نہیں
زہر یادوں نے بھی دل میں سمویا بھی نہیں
تو جو مل جائے تری یاد خفا ہو جائے
تجھ کو پایا جو نہیں میں تو کھویا بھی نہیں
صبح آئی ہے عیادت کو لئے آنکھ میں اشک
میں تو جاگا بھی نہیں، رات کو رویا بھی نہیں
کیوں مری طرح ہوا تیرے قدم ہیں بوجھل
بوجھ خوشبو کے سوا تو نے تو ڈھویا بھی نہیں
کسی جادو کے ہے پھندے میں گرفتار پہ شہر
کوئی شے چپ بھی نہیں ہے، کوئی گویا بھی نہیں
تھاپ ڈھولک کی وہی آج نبی ہے گھر گھر
رات جس بات کے ڈر سے کوئی سویا بھی نہیں
میرے ہاتھوں میں خلش کیوں یہ ہوے جاتی ہے
گل نے کانٹا تو مرے کوئی چبھویا بھی نہیں