چراغ تھے ہمیں جانے ہیں جیسے جلتے رہے
چراغ تھے ہمیں جانے ہیں جیسے جلتے رہے
تمام عمر دھواں ہی دھواں اگلتے رہے
انس کا شام سے تا صبح دور دورہ رہا
سحر سے شام تلک گرد باد چلتے رہے
منا رہا تھا جہاں برگ برگ جشن بہار
وہی قریب میں ہم شاخ شاخ جلتے رہے
کوئی بھی دوڑ زمانے سے ہم نہ جیت سکے
اگرچہ گھوڑے بھی ہر مرتبہ بدلتے رہے
تھا تجربہ جنہیں چاہت کا ٹھہرے اس کو عزیز
گھسے ہوے تھے جو سکے زیادہ چلتے رہے
جو کھو کھلے تھے شجر امن میں رہے فخری
تمام آرے ہری ڈالیوں پہ چلتے رہے