چارہ گروں کی چارہ گری کچھ کام تو آئی بارے

چارہ گروں کی چارہ گری کچھ کام تو آئی بارے
درد سفینہ جس سے شتابی پہنچا مرگ کنارے

گاوں کی گلیاں اس کے غم میں اب تک خاک بسر ہیں
جس اوارہ کی اک مدت گزری شہر سدھارے

پار فصیل کے غیت علاقے گئی وہ پتنگ تو کٹ کے
کس کو ڈھونڈ رہے ہیں برجے، باڑے اور گلیارے

شام اک بالک چاند جو ڈوبا پھر نہ سحر تک ابھرا
شب بھر چمکے شب بھر جھمکے کتنے بوڑھے تارے

راہ وفا میں یوں تو جانیں جتنی بھی جائیں کم ہے
کتنے سروں کے ایک اکیلیسر نے فرض اتارے

دشمن خوش ہیں اک نعرہ اک گالیتو ہاتھ آئی
گو اس جنگ میں خرقہ جبہ کفش وکلہ تو ہارے

کھوکھلی حجت کب تک کھوکھلے دعووں کی بیساکھی
ریت کی دیواروں کا دم خم کب تک ریت سہارے

فخری جانے کیا جھگڑے احسن سے لے بیٹھا ہے
اب نہ وہ گاوں نہ پیڑ املی کا اب نہ وہ اس  کے کٹارے 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *