پیش لفظ
میں نے جس ماحول میں آنکھ کھولی اس کی فضائیں جگر مراد آبادی کے شعروں کو ان کی مترنم آواز میں گنگنا تی اور اس کے درودیوار ’’بھوپال بھوپالیوں کے لیے ہے‘‘ کے سیاسی نعروں سے گونجا کرتی تھیں ۔ جگر ہر دوسرے تیسرے سال بھوپال آتے اور کبھی کبھی دو تین تین مہینے ٹھہرا کرتے ۔ مجھے یاد ہے کہ میری گلی کے دس میں سے نو گھر ان کی قیام گاہ رہ چکے تھے۔ اکثر وہ میرے چچا حامد سعید خاں کے ہاں جو خود بھی بہت اعلی پائے کے شاعر تھے یا اس گلی میں محمود علی خاں جامعی کے ہاں ٹھہرا کرتے ۔ ان کی شراب نوشی اور وارفتہ مزاجی میری آنکھوں دیکھی باتیں ہیں میرے والد شریف فکری کا شمار شہر کے ممتاز شعراء میں ہوتا تھا۔ وہ شوق قد وائی کے نمایاں شاگردوں میں سے تھے۔ شعر گوئی کے ساتھ ساتھ وہ ادیب اور نقاد بھی تھے اور ایک رسالے’’البصائر‘‘ کے ایڈیٹر بھی 1929ء میں جب اپنے محکمے کے انگریز وزیر سے کھٹ پھٹ پر وہ تخفیف کی ذیل میں قبل از وقت ملازمت سے فارغ کر دیئے گئے تو شعر و ادب کے ساتھ ریاستی سیاست میں بھی دلچسپی لینے لگے لیکن ادب وشعر سے زیادہ سیاست ہی اب ان کی دلچسپی کا مرکز بن گئی۔ شام ہوتے ہی گھر کی بیٹھک میں سیاسی لیڈروں کی محفل جم جاتی جو رات گئے تک چاۓ کے دور کے ساتھ چلتی رہتی ۔ اس محفل کے کئی شرکا ء آ گے چل کر ریاست کے وزیر اور وزیر اعظم بنے ۔ اس محفل کا سلسلہ ۱۹۴۵ء میں میرے والد کی اچا نک وفات پر منقطع ہو گیا۔
میری گلی اور اس کے قرب و جوار میں متعدد شاعر و ادیب رہا کرتے تھےانھی میں ایک سید محمد مہدی بھی تھے۔ انھوں نے محلے کے نوعمر لڑکوں میں شعری ذو پیدا کرنے کا ایک انوکھا سلسلہ شروع کیا ۔ انھوں نے محلے میں بچوں کے ایک ماہانہ مشاعرے کی طرح ڈالی۔ وہ مجھے اور میرے کئی ہم عمروں کو اساتذہ کی ایک ہی طرح میں غزلیں لکھ کر دیا کرتے جنھیں ہم ان مشاعروں میں اپنے نام سے پڑھا کرتے۔ اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ہم بچوں میں وزن کا شعور پیدا ہو گیا اور ہم بھی کوئی بے وزن شعر نہیں پڑھا کرتے تھے۔ بارہ تیرہ برس کی عمر میں بعض لڑ کے خود بھی الفاظ موزوں کرنے لگے اور پھر کچھ ہی عرصے بعد شہر میں ہونے والے مشاعروں میں شریک ہونے لگے۔ میرے ساتھ اس مشغلے میں دوسرے لڑکوں کے علاوہ میرے چچا احسن علی خان(جو میرے ہم عمر اور ہم جولی تھے ) اور عم زاد بھائی اختر سعید خان اور اظہر سعید خان بھی شامل تھے۔ کچھ عرصہ بعد اپنے اسکولوں کے ادبی رسالوں میں بھی ہمارا کلام چھپنے لگا۔
بھوپال میں سیاست ملکی غیر ملکی مسئلے سے شروع ہوئی ۔ ریاست کی تقریبا تمام قابل ذکر اسامیوں پر بیرون ریاست کے لوگ فائز تھے۔ سپرنٹنڈنٹ سے اوپر کے عہدے پر مشکل ہی سے کوئی مقامی باشندہ ہو گا، جو کام کرتا ہو گا ورنہ تمام عہدے اور منصب انھی بیرونی لوگوں سے بھرے پڑے تھے۔ قدرتی طور پر مقامی لوگوں کے لیے یہ تکلیف دہ بات تھی۔ اس سے ریاست میں بھی بھوپالی نان بھوپالی کی تحریک شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری ریاست پر چھا گئی جس کے لیڈر احسن علی خاں کے عم زاد بھائی شاکر علی خاں تھے جو آگے چل کر شیر بھوپال کے نام سے مشہور ہوۓ ۔ تیس کی دہائی کے نصف آخر میں اسٹیٹ پیپلز کانفرنس کی تشکیل عمل میں آ گئی تھی ، جس کا نصب العین ریاست میں ذمہ دار حکومت کا قیام تھا۔ یہ مطالبہ ہندوستان کی قومی تحریک آزادی کے ساتھ زور پکڑتا چلا گیا لیکن آزادی ملنے تک نواب بھوپال حمید اللہ خان نے اسے منظور نہیں کیا۔ ہندوستان کی مزدور تحریک کے زیر اثر ریاست کے نوجوان طبقے میں بھی مختلف پیشوں کی مزدور تنظیمیں بنی شروع ہوگئی تھیں ۔ میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے بی ۔اے کرنے کے بعد سیکرٹریٹ میں ملازم ہو گیا۔ سیکرٹریٹ یونین کے ساتھ ہی میں مختلف محکموں کی یونینوں کی فیڈریشن کا بھی جنرل سیکرٹری تھا جس نے ریاست میں ایک کامیاب قلم چھوڑ ہڑتال بھی کرائی۔
ان سرگرمیوں کے ساتھ ہی شعر و شاعری سے دلچسپی بھی جاری تھی ۔ ترقی پسند تحریک سے با قاعدہ وابستگی تو کافی بعد کی بات ہے، بھوپال میں اس کے مقاصد پہلے سے مقبول تھے۔ بقیہ ملک کی طرح بھوپال میں بھی سیاسی سرگرمیوں کے سبب اس دور کی انقلابی شاعری سے متاثر نہ ہونا غیر قدرتی تھا۔ یوں تو بھوپال میں عام طور پر غزل ہی مقبول صنف سخن تھی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ لوگ نظم سرے سے کہتے ہی نہ تھے۔ شہر میں نظم اور صرف نظم لکھنے والے بھی موجود تھے۔ مجھے یاد ہے کہ خود میرے والد نے خلافت کے موضوع پر نظم ایک جلسے میں سنائی تھی ۔ جگر مراد آبادی، فانی بدایونی ، اصغر گونڈوی اور حسرت موہانی کے ساتھ ہی جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، ساحر لدھیانوی، اسرار الحق مجاز، جان نثار اختر ، معین احسن جذبی اور کئی اور شاعر جن میں جوش ملیح آبادی سرفہرست تھے ۔ نوجواں نسل پر چھا گئے ۔ میرے دوست اور بھوپال اور علی گڑھ میں میرے ہم جماعت احمد علی خاں کونئی سے نئی انجمن بنانے کا بہت شوق تھا تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان منتقل ہو گئے اور یہاں ڈیلی پاکستان ٹائمز اورڈان کراچی کے پچاس سال تک ایڈیٹر رہے۔
انہوں نے بھوپال میں ۱۹۴۵ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین قائم کی اور اس کے پہلے سیکرٹری تھے۔ میں بھی عہدہ داروں میں شامل تھا۔ قدوس صہبائی نے جو انجمن کے صدر منتخب ہوۓ ، اس کا منشور تیار کیا۔ کچھ ہی عرصے بعد صہبا لکھنوی ، اختر جمال قمر جمالی ،مقصود عمرانی ، ابراہیم یوسف، سلمان الارشد اور مقصودعرفان وغیرہ کے سرگرم تعاون سے احمد علی خان کے گھر پر انجمن کے جلسے باقاعدگی سے ہونے لگے۔ پھر جب کے لگ بھگ جان شار اختر نے گوالیار چھوڑ کر بھوپال میں مستقل سکونت اختیار کی تو انجمن میں اور بھی جان پڑ گئی۔ ۱۹۴۸ء میں احسن علی خان صدر اور اختر سعید خان سیکرٹری منتخب ہوۓ ۔ احسن لڑکپن ہی سے نظمیں اور نظمیں بھی انقلابی قسم کی کہا کرتے تھے۔ انجمن کی باگ دوڑ ، جب ان کے ہاتھوں میں آئی تو اس کی سرگرمیوں میں مزیدتیزی آ گئی۔ ۱۹۴۸ء میں بھوپال میں سید سلیمان ندوی کی زیر صدارت انجمن کی کل ہند کانفرنس منعقد ہوئی جس میں دوسرے لوگوں کے علاوہ کرشن چندر اور مجروح سلطان پوری نے بھی شرکت کی ۔ مئی ۱۹۴۹ء میں انجمن کی کل ہند کانفرنس ہوئی۔ بمبئی میں اجازت نہ مل سکنے کے سبب اس کی ایک مضافاتی بستی بھیمڑی میں اس کا اہتمام کیا گیا تھا۔ میں نے بھی ایک مندوب کی حیثیت سے اس میں شرکت کی ۔
کانفرنس کی ایک خاص بات تھی کہ ہندوستان کی تقریبا ہر زبان کے ادیبوں اور شاعروں کی اس میں نمائندگی دیکھنے میں آئی۔ کانفرنس میں نئی انتظامیہ کا انتخاب عمل میں آیا اور ایک تیز قسم کے پروگرام کی منظوری دی گئی ۔حکومت وقت اس پر چوکنی ہوئی اور اس نے اس کے عہدہ داروں کی پکڑ دھکڑ شروع کر دی۔ احسن علی خان بھوپال واپسی پر گرفتار ہوۓ کچھ لوگ انڈر گراؤنڈ چلے گئے۔ میں بعض دوسری وجوہات کے سبب کراچی آ گۓ۔ لیکن آگے چل کر حالات کچھ ایسے بنے کہ یہاں آیا تو یہیں کا ہو رہا یہ وہ زمانہ تھا جب انجمن کی سرگرمیوں پر حکومت کی کڑی نظر تھی ۔ میں اگر چہ کراچی اور لاہور میں اپنے مختصر قیام میں انجمن کے جلسوں میں صرف ایک ایک بار شریک ہوا لیکن سی آئی ڈی اس برائے نام شرکت سے بھی پیچھے لگ گئی اور جب پشاور پہنچا تو اس کی عنایات مستقل طور پر شامل حال ہوگئیں حالانکہ یہاں انجمن ترقی پسند مصنفین سے زیادہ انجمن ترقی اردو کا زور تھا۔ اکثر ترقی پسند شاعر و ادیب مثلا ضیاء جعفری، فارغ بخاری، احمد فراز، رضا ہمدانی، خاطر غزنوی، توصیف تبسم، نذیر مرزا برلاس، انور شفقی، یوسف رجا، مرزا محمود سرحدی وغیرہ سب کے سب انجمن ترقی اردوکے اجلاسوں میں شریک ہوا کرتے تھے۔
یہاں ایک دلچسپ واقعے کا بھی ذکر کرتا چلوں ۔ ایک بار انجمن ترقی پسند مصنفین کا جلسہ میرے گھر پر ہوا جس میں انجمن ترقی اردو کا پورا گروپ بھی شریک تھا حکیم حسن عباس نے احمد فراز پر ایک مضمون پڑھا جس میں حسرت موہانی کی شاعری کی اقسام شاعرانہ، عاشقانه، فاسقانہ، وغیرہ بیان کرنے کے بعد فراز کی شاعری کو ان میں سے کسی قسم پر منطبق کیا گیا تھا۔ شرکاۓ جلسہ نے اس پر خوب لے دے کی۔ میں اعتراض کرنے والوں میں کچھ زیادہ ہی آگے تھا۔ طے ہوا کہ اگلے جلسے میں میں ایک جوابی مضمون پیش کروں ۔انجمن ترقی پسند مصنفین کے منتظمین اس واقعے پر کچھ ایسے خوفزدہ ہوۓ کہ رجسٹر بھی مجھے تھا دیا اور اس کے بعد پھر کبھی اس کی خبر نہیں لی اور نہ پھر اس کے بعد انجمن کا کوئی اجلاس ہوا میں ان دنوں روز نامہ شہباز سے منسلک تھا۔ ساتھ ہی ہفت روزہ تنویر کی ادارت بھی میرے سپرد تھی۔ وہاں سے میں ۵۳ء کے اواخر میں راولپنڈی چلا آیا آنے کا اصل مقصد تو گورڈن کالج میں ایم اے اردو میں داخلہ لینا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ روز نامہ تعمیر میں بھی کام کرنے لگ گیا۔ میں پشاور کی طرح یہاں بھی جرنلسٹ یونین کا سیکرٹری رہا۔
گورڈن کالج میں میرے اساتذہ پروفیسر قدرت اللہ فاطمی اور صفی حیدر دانش تھے ۔ پریولیس اور فائنل کو ملا کر میرے ہم جماعت انور عالم صدیقی ، انور نگینوی ،غفران الجیلی ، فضل کاظمی ، شفقت تنویر مرزا، جمیل ملک ، منیر فاروقی تھے۔ میں نے ۵۷ء میں ایم اے کیا۔شعبہ تدریس میں ۱۹۲۳ء میں آیا اور پہلا تقررمری میں ہوا۔ مری کے علاوہ گورنمنٹ کالج ، اصغر مال ، راول پنڈی اور گورنمنٹ کالج شیخوپورہ میں بھی رہا۔ آخری برسوں میں دوبارہ پہلے مری اور گورنمنٹ کالج اصغر مال میں آیا جہاں سے ۱۹۸۳ء میںریٹائر ہوا۔ مجموعی طور پر اپنی شعری کاوش کے بارے میں یہ ضرور کہتا چلوں کہ شعر کمیرا تفریحی مشغلہ بھی نہیں رہا۔ کسی اندرونی تحریک کے بغیر میں نے کبھی کچھ نہیں کہا میرے شعری سرماۓ کے مختصر ہونے کی وجہ شاید یہی فطری تحریک کی کمی کہی جاسکتی ہے جو میرے بس میں نہیں ہے۔ آپ کو اس کاوش میں روایت کے ساتھ بغاوت کے نمونے بھی ملے بغیر نہیں رہیں گے۔ میرا یہی اعتماد اس شعری کاوش کو منظر عام پر لانے کا باعث بنا ہے۔ اس مجموعے کا نام برادر عزیز یوسف حسن کا تجویز کیا ہوا ہے جو مجھے پسند ہے ۔ غزلوں کے انتخاب اور ترتیب کے لیے عزیز دوست ڈاکٹر توصیف تبسم ، یوسف حسن اور ڈاکٹر خالد اقبال یاسر کا شکر گزار ہوں ۔ موخر الذکر ہی کے بے حد اصرار اور کوشش سے اس مجموعے کی اشاعت ممکن ہوسکی جس کی جزا (یا سزا) کے وہی مستحق ہیں۔