پژ مردہ کسی زئیس کے ڈرسے
پژ مردہ کسی زئیس کے ڈر سے
پر دل میں بغاوتوں کا شعلہ
روتی تھی پکارتی تھی لوگو
کچھ ہوش ہے تم کو میرا اپنا
محروم ہ و میرے جلوے سے تم
خود اپنی نظر سے میرا پردہ
مدت سے تمہارا خون ہے سرد
سینے میں ہے دل کہ برف پارہ
کب تک یہ رگیں لہو سے خالی
یہ جان کہاں تک فسردہ
میں کس سے کہوں کوئی تو بتلائے
پروموتھئیس کہاں ہے میرا
اے محرم کرب نسل آدم
اے درد شناس اہل دنیا
اے آرزوے نفوس مہجور
محبوس اناوں کی تمنا