وہ آرہے ہیں مگر کوئی سرخوشی ہی نہیں
وہ آرہے ہیں مگر کوئی سرخوشی ہی نہیں
کہ زندگی میں وہ پہلی سی زندگی ہی نہیں
وہی ہے رات وہی چاند اور وہی تارے
مگر وہ چاند کی پہلی سی چاندنی ہی نہیں
وہی نگاہ وہی جلوہ آج بھی ہے مگر
نگاہ و جلوہ میں وہ ربط باہمی ہی نہیں
شکستہ ساز پہ مضراب نغمہ زن بے کار
شکستہ سار میں جب روح نغمگی ہی نہیں
شراب و ساغر و ساقی تمام تع بے سود
کہ بادہ خوار میں وہ ذوق مے کشی ہی نہیں
خود آستان جمال اب ہو سجدہ خواہ تو کیا
جبین شوق کو وہ ذوق بندگی ہی نہیں
خصوصیات ایازی تو حسن میں ہیں مگر
نگاہ عشق میں وہ ذوق غزنوی ہی نہیں
وہ آئیں میرے سر انکھوں پہ شوق سے لیکن
اب ان کے آنے کی پہلی سی وہ خوشی ہی نہیں
قصیدہ لکھ نہ سکا ان کی شان میں افسوس
میں کیا کروں کہ دماغ سخن وری ہی نہیں
بڑا مزا ہے محبت کی گفتگو میں مگر
مزاج میں تو محبت کی چاشنی ہی نہیں
ابھی کچھ اور بھی کرنا ہے زندگی میں مجھے
حیات صرف سزاوار عاشقی ہی نہیں