وہی تنکے وہی کانٹے وہی خس دیکھیں گے
وہی تنکے وہی کانٹے وہی خس دیکھیں گے
ہو کے آزاد بھی کیا اہل قفس دیکھیں گے
خبر موسم گل سن کے قفس میں ہر بار
سوچتے ہیں کہ چلو ا گلے برس دیکھیں گے
خون بھی شامل فریاد کیا تو پھر کیا
دیکھنے والے تو آواز میں رس دیکھیں گے
ارمغان سنگ کو زخموں کو گلستان نہ کہو
اہل نقد اس میں بھی پہلوئے ہوس دیکھیں گے
رات دن رونے سے بھی دل کی گھٹن کم نہ ہوئی
جتنی برسات ہو اتنی ہی امس دیکھیں گے
دور سے لگتے ہیں مینار تمنا کیا خواب
اے تمنائے نظر خلد حیا جان حبیب
سامنے بیٹھ تو آ کر تجھ بس دکھیں گے