ننھی مونا بیٹھ کے میرے کندھے پر یوں بولی
ننھی مونا بیٹھ کے میرے کندھے پر یوں بولی
ابو دیکھا آپ سے بھی میں اب اونچی ہو لی
اندر سارا خالی تھا کپٹی تھی ہوا میں شاید
صوفی نے سرمستی میں جب اپنی پگڑی کھولی
اپنی جٹاوں سائے اس کو پھانسے دنائے رکھا
سادھو برکد سیدھے سرو کا ہوتا تھا ہمجولی
اس کو چھپنا آئے نہ مجھ سے اس کو ڈھونڈنا آئے
دو نابینا کھیل رہے ہیں باہم آنکھ مچولی
فصل بھی تو اس سال کئی ہے کیسے کیسے سروں کی
سنتے ہیں اس بار بڑے زوروں کی جلے گی ہولی
فخری تیرا کڑواپن کہتا ہے بالپسنے میں
اپنے گھر کی نیم کی شاید تو نے کھائی نبالی