مے چلے، رقص کریں دف پہ ترا ساتھ بھی دے
مے چلے، رقص کریں دف پہ ترا ساتھ بھی دے
تو کرے حل تو یہ دل اور سوالات بھی دے
دل میں سنسان دوپہری کا ڈیرا کب تک
اے سیہ زلف اسے شام حکایات بھی دے
کس قدر خشک ترے ہجر کی رت بیتی ہے
تر پتر اتنی ہی اب پیار کی برسات بھی دے
جو بھی شے ہے وہ تلی بیٹھی ہے جھٹلانے پر
تجھے سچا جو کہیں ایسے نشانات بھی دے
اپنی غفلت کی شکایت پہ میں سے جاں سے نثار
میں تجھے یاد کروں مجھ کو وہ حالات بھی دے
تو اگر چاہے تو ہر شب رہے فخری کا شریک
اور تردید میں ہر صبح بیانات بھی دے