مدت ہوئی کہ فخری چپ چپ رہا کرئے ہے

مدت ہوئی کہ فخری چپ چپ رہا کرئے ہے
چپ چاپ اپنے دل سے باتیں کیا کرے ہے

بے بات اس نے ہنسنا جانے کہاں سے سیکھا
پوچھو جو کیاں ہنسا ہے تو رو دیا کرے ہے

گہ چلتے چلتے رہ میں رہ جائے ٹھٹک کر
گہ بیٹھے بیٹھے اک دم وہ چل دیا کرے ہے

پوچھو جو کیا کہا ہے تو چپ کہ کیا کہوں میں
یوں غور سے وہ سب کی باتیں سنا کرے ہے

کھویا ہوا سا رہنا اور منہ سے کچھ نہ کہنا
دیکھے جدا ہر ادھر ہی پہروں تکا کرے ہے

وخشت زدہ ہے ایسا کیا ہو گا کوئی آہو
دیکھ آپ اپنا سایہ ظالم ڈرا کرے ہے

کوئی کہے کہ اپنے کچھ شعر تو سناو
تو میر کی وہ بیتیں کچھ پڑھ دیا کرے ہے

حجرے میں خامشی کے اک زندگی بتا دے
دیکھیں کب اپنے دل کا دروازہ وا کرے ہے 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *