فخری تیرے سجاوٹ کے انداز ہیں کیا ہی نرالے
فخری تیرے سجاوٹ کے انداز ہیں کیا ہی نرالے
کھر کے کوشے میں مکڑی کے تنے ہیں جالے
ادھڑے دلانوں میں زخموں کی اک فصل کھڑی ہے
ٹوٹی سر کی ان پر ہنستی میلے دانت نکالے
گھن سے چھلنی کڑیوں میں چھت گھورے آنکھیں دکھائے
فرش چھپا بیٹھا ہے گڑھوں کے اندر پھندا ڈالے
کمروں کی سیلن سے ہوا کو سانس بھی لینا ہے دشوار
دھوپ کی انکھوں میں ہیں مو کھے دھند کا چیپٹر پالے
کیا گھر کیا گھر والے دونوں ایک ہی چتر کے دو روپ
ایک پھپوند میں ڈوبا دوجا دیمک کے ہے حوالے
نظریں گونگی سوچیں لنگڑی جذبے اندھے بہرے
کیسا شراپ ہے جس میں پھنسے ہیں شیر کے رہنے والے
کیوں نہ ہو کوچہ کوچہ مصفا میرے ہی گھر میں گرے ہیں
ساری بدروئیں بستی کی سارے ہی پرنالے
شہر میں اور جگہ تو دھوپ ہے کیسی سونا چاندی
میرے محلے ہی میں کیوں ہے کہرا ڈیرا ڈالے
ساری برکھا اک چھینٹے کو میرے ہی زمین ہی ترسی
ورنہ برابر والے کھیت میں کتنے پڑے ہیں جھالے
اجنبی چہرے دیکھ کیساون لوٹ گئے بستی سے
کون ہے ملہار الاپے آم میں چھولا ڈالے
ہم پھل چور تہ بے شک ہیں پر تنہاخور نہیں ہیں
اپنے پرانے یار جو ٹھہرے باغ کے سب رکھوالے
فخری ان جتنون سے کب جاتی ہے گھر کی سیاہی
جتنا چاہے لیپا پوتی کر کر ان کو اجالے