صبح قیامت کوئی تو اس کو شام غزل جانا
شام غزل
صبح قیامت کوئی تو اس کو شام غزل جانا
وہ تو پکار ہے جسم کی دل کی میں نے پہچانا
نام ہے اس کا ساون بادل مینہ کی دھار پھوار
کام جو دیکھو میرے پیاسے لب کو ترسانا
اس کی وضع کہ سمٹے سمٹے رہنا ساری عمر
میرے تنگی چادر کا پر کیاکیا شرمانا
میرے اجلے لباس پہ بھی کیا کیا اترانا
کب سے غازہ حسرت سے ہے اس کا منہ تکتا
کب سے مہندی اس کے ہاتھوں اور پاوں سے بیگانہ
کب سے کاجل کو ہیں اس کی انکھیں افسانہ
کب سے وینٹی بیگ اس کا دو چھیتے کی زینت
اس کی سنکھار کی میز کا مصرف کب سے تہ خانہ
کب سے اس کا جاڑا اونی چادر سے روٹھا
کب سے اس کی گرمی کا ململ سے شرمانا
میں اک شہری بابو کل دو جوڑے کپڑوں کا
روز ہی شہر کی من من دھول سے جھولی بھر لانا
اس کا اپنے چن ہاتھوں میں چن کر روز یہ دھول
میری صحبتیں روشن رکھنا شامیں اجلانا
درد دل سے دن کو چین یہ راتوں کو ارام
جب بھی حال میں پوچھوں اس کا صاف مکر جانا
وہ جاڑیکی رھوپ کہ جس سے گھر بھر گرم گداز
گرمی کی وہ چھاوں تھکن کا جس میں گھل جانا
گھر گھر پھیلی موج حبس میں اس کی ذات نسیم
کام مسرت کھلانا خوشیاں بکھرانا
بیس برس سے میرے سامنے اس کا ایک ہی روپ
ایک پجارن اپنا گھر جس کا عبادت خانہ
فخری ساٹھ برس تو ہونے آئی عمر تری
اب بھی نہ چھوٹا پر خوابوں سے تیرا یارانہ