ستم تو ہونا تھا آخر، ستم ہوا بھی کیا
ستم تو ہونا تھا آخر، ستم ہوا بھی کیا
قدم تو آگے پڑھے، سر قلم ہوا بھی تو کیا
ہمیں تو جلنا ہے اپنی وفا کے دوزخ میں
کسی کی آنکھ میں رقصاں ارم ہوا بھی تو کیا
سوائے خار کوئی شے نہ اگ سکے جس میں
وہ قطعہ سارے بیاباں میں نم ہوا بھی تو کیا
بنا کے زینہ بریدہ سروں کا تابہ فلک
مہ و ستارہ پہ اپناقدم ہوا بھی تو کیا
مزا تو پینے کا جب ہے کہ ساتھ مل کے پیئں
اکیلے ہاتھ مں گر جام جم ہوا بھی تو کیا
کتاب بخت مری سو غموں کا دفتر ہے
تمہارے ظلم کا اک باب کم ہوا بھی تو کیا
بغیر مانگے جو اک بوند بھی کسی کو نہ دے
حبیب پھر وہ سحاب کرم ہوا بھی تو کیا