رہا وقت شاہنشہ این وآں گرفتار لمحات کے کال میں
رہا وقت شاہنشہ این وآں گرفتار لمحات کے کال میں
سمندر ہوے کتنے حالی مگر نہیں ایک بھی قطرہ غربال میں
جو روشن ہوا پھول بجھ کر رہا کھلا جو شرارہ بھی مرجھا گیا
ہے رفتہ کا اک زہر قاتل گھلا ہر ایک جام آئندہ و حال میں
وہ انکھیں جو کرتی تھیں باتیں کبھی وہ جن میں سجھی تھیں براتیں ابھی
وہی جن کو آتی تھیں گھاتیں سبھی مقید ہیں خود موت کے جال میں
ابھی ماں کی باہوں میں تھے جھولتے بھی تتلیوں کے تھے پیطھے ٹنگے
مگر اب زمیں میں پڑے ہیں بجھے وہ بازو وہی پاوں کس حال میں
زمانے کا یہ خط ہے سیدھا کھینچا کہ ہے دائرہ یا گرہ درگرہ
ہیں شام و سحر دو کنارے جدا کہ دن غرق ہے رات کے تال میں
جو لکڑی تھی جل کر بنی کوئلہ، جو تھا کوئلہ راکھ میں ڈھل گیا
پرانے باورے میرے انگارہ دل سدا سے ہے تو ایک حال میں
مجھی سا تہی کیسہ و بے نوا تغیر کی دولت سے آشنا
وہ پل نوع سے اپنی کوسوں جدا ملا مجھ کو شہر مہ و سال میں
کہے کون شاکر علی خان سے اب کہ ہیں غم سے پتھر بنے سارے لب
کھنے پیڑ تو کیا گرا چھپ گیا، تو کاک سایہ بھی بھوپال میں
رلاتے ہیں جب مجھ کہ وہ خال و خد تو ہنستے ہیں کیا کیا یہ اہل خرد
خدوخال کتنے ہی بے تہہ سہی پہ کچھ ہے اگر تو خدوخال میں
سن اے وندھیا کے سجیلے سبھاو، سن اے نربدا کے نشیلے بہاو
تمہارے دیوانے کی تم کو قسم نہ آئے کبھی فرق اس چال میں
مگر ہائے فخری مرا کج کلہ ہزاروں کی لاکھوں کی حد نگہ
یہ مانا کہ ہیں زیر تکوین افق مسلسل نظر کے پرو بال میں