ذکر دل بہر حوالہ بھی اگر کرنا پڑا
ذکر دل بہر حوالہ بھی اگر کرنا پڑا
عقل زادوں پر ہنسی کا کیا غضب دورہ پڑا
اپنے جلتے گھر سے بھاگا تھا سو جلتا ہوں ہنوز
بچ نکلنا مجھ کہ جل مرنے سے بھی مہنگا پڑا
مرگ و پیدائش کا اک دفتر جو ہے اس شہر میں
ازسرنو نام اس میں اپنا لکھوانا پڑا
کس قدر خوش تھے مجھے اس روپ میں سب دیکھ کر
ان کی خوشنودی کی جب بہروپیا بننا پڑا
جتنے تھے آدرش رہن طاق نسیاں کر دیے
اور پھر ہر سم کو مے اور مے کو سم کہنا پڑا
بہر رفع شر ملائی دوسروں کی ہاں میں ہاں
پھر ابھی سے ایک دن کس شان سے جھوٹا پڑا
میر کے لفظوں میں اوراق مصور تھا کبھی
اب اس دل میں خرابہ سا ہے اک بکھرا پڑا
چاک کر ڈالا تھا جو دامن خرد کا فخر سے
کس مذمت سے اسی کو عمر بھر سینا پڑا
دوسروں کے آئینے بھی ایسے کچھ سالم نہ تے
میں نے مانا خود میرا آئینہ ہے ٹوٹا پڑایا
یاد کر کے یوں دل مرحوم کو رویا حبیب
آج بچوں کی طرح سے اس کو بہلانا پڑا