دیباچہ

صرف میرادل ہی نہیں سارے حساس دل پاؤں رکھ کر گزرنے والوں کے درمیان ہیں مگر حبیب فخری ایک ایسے نایاب انسان ہیں جنھیں دیکھ دیکھ کر میرے جیسے دل گرفتہ لوگوں کے حوصلے جوان ہیں ۔حبیب فخری کی نوے سالہ زندگی چین سے نہیں گزری مگر میں نے انھیں ہمیشہ آرام ہی میں پایا۔ ان کی زندگی مسلسل نشیب و فراز سے عبارت ہے ۔ نشیب وفراز بھی سطح مرتفع بھوپال جیسے نہیں ، ہندوکش جیسے ۔ وہ ساری عمر گھڑیال کے پنڈولم سے بندھے رہے۔ پریشانیوں میں تدھے رہے ۔ اپنی عمر کی گھڑیوں میں کمی بھولتے رہے ۔ بیم ور جا کی دوانتہاؤں کے بیچ بے تکان جھولتے رہے ۔ ڈوبتے جہاز کے عرشے پر بھی سکون سے سو جانے والے اس شاعر کی طبیعت میں ازلی ابدی خوش دلی گھٹا ٹوپ اندھیروں میں محض ایک جگنو نہیں کسی رہنما ستارے جیسی ہے ۔

حبیب فخری کی ترقی پسندی ان کی اسی طبعی رجائیت سے پھوٹتی ہے ۔ انھیں اب بھی اپنی انفرادی اور اجتماعی جد و جہد کی کامیابی کا اتناہی یقین ہے جتنا اس تحریک سے وابستگی کی ابتدا میں تھا۔ انسان اور انسانیت پر ان کا ایمان اب بھی سلامت ہے ۔  یگانہ کی طرح ان کے تعلقات زمانے سے کشید ہ تو نہیں ہیں لیکن محض فریب دیدہ ہی نہیں یہ بار بارفریب خوردہ نص زمانے سے جان بوجھ کر فریب کھانے کے لیے اب بھی تیار ہتا ہے ۔ ایسا بھی نہیں کہ وہ اپنے دکھوں کو اپنی جان پر جھیلا نہیں کرتے ، بس اتنا ہے کہ وہ میرے جیسے تھر دلوں کی طرح بہ آواز بلند واو یلا نہیں کرتے کبھی کبھی مجھے حیرانی ہوتی ہے کہ وہ ترقی پسند بھی ہیں ، دردمند بھی ہیں اور اس کے باوجود خو رسند بھی ہیں ۔ وہ شعلہ خونہیں ، بگولہ جو نہیں ، نہ ہی وہ زودرنج ہیں بلکہ صلح کل اور مرنجاں مرنج ہیں ۔

تلخ وتند مکالموں اور گرما گرم مجادلوں کی سماعتوں میں بھی ان کے بھر یوں سے خالی سرخ و سپید چہرے پر گرد و پیش سے بے نیازانہ ایک دھیمی دھیمی صوفیانہ مسکراہٹ کھیلتی رہتی ہے۔ حبیب فخری کی غزلیں اور نظمیں ان کی انھی جینیاتی خصوصیات کی ترجمان اور معاشرتی المیوں کا اثر آفریں بیان ہیں ۔ ان کے شعروں کا تاثر اس لیے دو چند ہے کہ وہ ذاتی مفادات کے دینار وفلوس سے آلودہ نہیں بلکہ جذبات کے خلوص سے افزودہ ہیں ۔اس نسلی خٹک بھوپالی نے بڑے بڑے جغادری ترقی پسندوں کی آنکھیں دیکھ رکھی ہیں لیکن مجال ہے کہ وہ ان کے نعرہ زن اسلوب سے ذرا سا بھی متاثر ہوئے ہوں ۔ انھوں نے اپنا لہجہ الگ تراشا ہے، اپنی راہ ان سے الگ نکالی ہے، اس لیے تاخیر سے اشاعت کے باوجود بھی ان کی شاعری آج اور آئندہ کی شاعری ہے، ہرعہد کے خوابوں کی زندہ و تابندہ صورت گری ہے ۔ ان کی ذات اور کیفیات کی طرح گھری ہے۔

ڈاکٹر خالدا قبال یاسر