دن رات میرے حال پر مصروف پند تھے
دن رات میرے حال پر مصروف پند تھے
کرتے بھی اور کیا کہ بہت دردمند تھے
دست بریدہ پر مرے ان کی پڑی نہ آنکھ
انگلی کی پٹی دیکھ کے جو فکر مند تھے
زعم نظر تو اشکوں سے پہچانتا مجھے
اندھا تھا میں جو اشک بھی انکھوں میں بند تھے
تقریر پر میری یہ رعایت بھی کم نہ تھی
محفل میں گالیوں کے عوض زہر خند تھے
مشعل اٹھانے پر کوئی تیار ہی نہ تھا
طرے براتیوں میں سبھی کے بلند تھے
بھرتے تھے میل دل میں چھپائے ہر ایک سے
بستی کے لوگ کتنے نفاست پسند تھے
اک دوسرے سے رہ گئے محفوظ کس طرح
کتنے ہی سانپ ایک پٹارے میں بند تھے
سرکس میں رات شیروں نے کیا کیا دکھائے کھیل
لوگوں کا کیا ہے کہتے ہیں سے گوسفند تھے
کس طرح اسپ چوبیں نشیناں سے پٹ گئے
ہیلن کے چور بھی تو وہیں قلعہ بند تھے
فخری اٹھائے پھرتے تھے اپنی صلیب آپ
ہم جیسے بیوقوف مگر چند تھے