جس طرف دیکھے اک ہو کا سماں چھوڑ گیا

جس طرف دیکھے اک ہو کا سماں چھوڑ گیا
جانے والے تو مجھے جانے کہاں چھوڑ گیا

عشق کھینچے ہے گریباں تو زمانہ دامن
دو خریفوں میں دل دشمن جاں چھوڑ گیا

دل جگر دونوں ہی اک عمر رہے اپنے رفیق
اس کا کیا ذکر ہے اب کون کہاں چھوڑ گیا

اس کی نفرت یقین جب نہ مجھے مار سکا
اپنی چاہت کا مرے دل میں گماں چھوڑ گیا

مر گیا آخر شب یوں تو کوئی دیوانہ
آنکھیں دروازے کی جانب نگراں چھوڑ گیا

دل نے اپنی بھی رکھی بات ادھر ان کی بھی
اس گلی سے نہ گیا ویسے جہاں چھوڑ گیا 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *