جان کر بے مایہ، شاخون سے کیا جن کو جدا
جان کر بے مایہ، شاخون سے کیا جن کو جدا
چن رہی ہے اب ان پتوں کو جھولی میں ہوا
وہ ادھورا خواب شب کا شاید آ جائے نظر
ہی تصور لے کے دن کو بھی پڑا سوتا رہا
آج دیکھی آئینے میں شکل کتنے روز بعد
خیر سے میں کتنے روز بعد اپنے گھر گیا
صبح تک اک بجبجاتا زخم تھا سارا وجود
سو گیا تھا اوڑھ کر میں چاندنی شب کی ردا
بعف کی تھی سل دھری ہر اک سینے میں جہاں
سوچ دوزخ میں وہیں میں عمر بھر جلتا رہا