اب جس سے کہ خوابوں میں بھی ملنا نہیں ہوتا
اب جس سے کہ خوابوں میں بھی ملنا نہیں ہوتا
جو پل میرا بھولے اسے زندہ نہیں ہونا
جب a بھی کوئی دک ہو مجھے آتا ہے وہی یاد
ہر چند خدا بھی تو وہ میرا نہیں ہوتا
دل میں نہیں خود بن کے وہ دل رہتا ہے مجھ میں
بس اس سے وہ نزدیک زیادہ نہیں ہوتا
مایوسی میں یاد اس کی ہے آس اچھے دنوں کی
جوں آخر شب صبح کا تازہ نہیں ہوتا
بن کر وہ یقین کرتا ہے مہمیز مرا عزم
مشکل میں میرا صرف ارادہ نہیں ہوتا
وہ معنی دل ہے مرا الفاذ سے آزاد
تسریح کا بار اس کو گوارا نہیں ہوتا
دل کوستا خود ہی گلی چھوڑی تھی اس کی
اب جس کا کہ در مرن ے پہ بھی وا نہیں ہوتا
یہ رشتہ دامان و گریبان مرے مولا
گر ٹوٹا تھا یوں تو وہ ٹوٹا نہیں ہوتا
فخری کہیں اب پھینک بھی آ اس دل و جان کو
یہ زخم جدائی اگر اچھا نہیں ہوتا